http://www.ThePersecution.org/ Religious Persecution of Ahmadiyya Muslim Community
Recommend UsEmail this PagePersecution News RSS feedeGazetteAlislam.org Blog
Introduction & Updates
<< ... Worldwide ... >>
Monthly Newsreports
Media Reports
Press Releases
Facts & Figures
Individual Case Reports
Pakistan and Ahmadis
Critical Analysis/Archives
Persecution - In Pictures
United Nations, HCHR
Amnesty International
H.R.C.P.
US States Department
USSD C.I.R.F
Urdu Section
Feedback/Site Tools
Related Links
Loading

BBC Urdu service interviews Ms Aneesa Munawwar mother of Waleed killed in suicide attacks on Ahmadiyya Mosques in Lahore.

Home Urdu Section BBC Urdu Service Duaen sun kur…
BBC Urdu Online se

http://bbcurdu.com
  07:01 GMT 12:01 PST   آخری وقت اشاعت: پیر 28 جون 2010
’دعائیں سن کر دل کو ڈھارس ہو رہی ہے‘
ظہیرالدین بابر
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

’یہ غم میں لپٹی ہوئی خوشی کی خبر تھی۔ دکھ تو بہت ہے جانے والے کا، لیکن جو وہ ہمیں عزت دے کر گیا ہے۔ ہر آنے جانے والے اور پیارے امام کی دعائیں سن کر دل کو ڈھارس ہو رہی ہے۔‘

انیسہ منور کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے لیکن کانپتے ہوئے ہاتھ اور لرزتی ہوئی آواز ان کے غم کو نہ چھپا سکی

اپنے بیٹے ولید کی موت کی داستان سناتے ہوئے پینتالیس سالہ انیسہ منور کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے لیکن کانپتے ہوئے ہاتھ اور لرزتی ہوئی آواز ان کے غم کو نہ چھپا سکی۔

سترہ سالہ ولید، اٹھائیس مئی کو لاہور میں گڑھی شاہو کی احمدی عبادت گاہ میں جمعے کی ادائیگی کے لیے پہنچے تھے۔

’میں جمعہ پڑھ کر گھر پہنچی تو موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ فون پر ولید تھا۔ اس نے بتایا کہ ماما، میں جمعہ پڑھنے آیا تھا اور یہاں حملہ ہو گیا ہے۔ فائرنگ بہت ہو رہی ہے۔ ماما، آپ بہت دعائیں کرو۔ اس کے بعد ولید کا رابطہ اپنے والد کے ساتھ رہا۔‘

انیسہ منور نے اپنے بیٹے کے ساتھ آخری رابطے کے بارے میں بتایا: ’پونے آٹھ بجے ہمیں پتہ لگا کہ وہ شہید ہو گیا ہے۔‘

ربوہ (جسے سرکاری طور پر چناب نگر کا نام دے دیا گیا ہے) کے رہائشی ولید، لاہور میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ان کے والدین نے انہیں جماعتِ احمدیہ کے لیے وقف کر رکھا تھا یعنی وہ فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنی زندگی جماعت کی خدمت میں وقف کر دیں گے۔ ولید کے والدین کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا اور وہ اُن چھیاسی افراد میں شامل تھے جو گڑھی شاہو اور ماڈل ٹاؤن میں احمدیوں پر ہونے والے حملوں میں چل بسے۔

اِن حملوں میں لوگ گڑھی شاہو کی عبادت گاہ میں چار حملہ آوروں کی گولیوں، دستی بموں اور خودکش بم دھماکوں کا نشانہ بنے۔ ایک ماہ گزرنے کے باوجود عبادت گاہ سے حملے کے نشانات پوری طرح نہیں مِٹ پائے۔ لوہے کے بڑے داخلی دروازوں پر گولیوں کے سوراخ موجود ہیں۔ شاید ہی ایسا کوئی دروازہ یا دیوار ہو جس پر گولیوں کے نشانات نہ بچے ہوں۔ عبادت گاہ میں تاحال مرمت اور سکیورٹی بڑھانے کا کام جاری ہے۔

گڑھی شاہو کی عبادت گاہ پر حملے کے جس عینی شاہد نے بی بی سی کو ایک ماہ بعد وہاں کا دورہ کرایا، وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ان کے بقول انہیں مزید حملوں کی دھمکیاں ملی ہیں۔ مایوس کُن آواز میں انہوں نے کہا: ’جو لوگ احمدی نہیں ہیں، انہیں اتنا صدمہ نہیں ہوا۔ بہت کم لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ زیادہ تر نے یہی کہا کہ دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو خوشیاں منائیں، مٹھائیاں تقسیم کیں اور کہا کہ اِن کے ساتھ یہ ٹھیک سلوک ہوا ہے۔‘

جو لوگ احمدی نہیں ہیں، انہیں اتنا صدمہ نہیں ہوا۔ بہت کم لوگوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ زیادہ تر نے یہی کہا کہ دھماکے ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو خوشیاں منائیں، مٹھائیاں تقسیم کیں اور کہا کہ اِن کے ساتھ یہ سلوک ہوا ہے۔

ولید سمیت ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کو لاہور سے تقریباً ڈھائی سو کلو میٹر دور شہر، ربوہ کے قبرستان میں دفنایا گیا ہے۔

سورج ڈھلتے ہی قبرستان میں احمدی مردوں، عورتوں اور بچوں کا تانتا بندھنے لگتا ہے۔

لاہور حملوں میں ہلاک ہونے والوں کو ربوہ میں چار دیواری میں گھرے احمدیوں کے مرکزی قبرستان میں جگہ نہیں مل سکی۔ اس قبرستان میں ان کے اہم مذہبی رہنماؤں سمیت برصغیر کی تحریکِ پاکستان میں پیش پیش رہنے والی شخصیت اور ملک کے سابق وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ خان اور پاکستان کے واحد نوبیل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی دفن ہیں۔

انیس سو چوراسی سے پہلے کی قبروں پر لکھی گئی قرآنی آیات پر سفیدی پھیر دی گئی ہے۔ زیادہ تر قبریں ایسے لوگوں کی ہیں جو فطری موت نہیں مرے۔

انیس سو چوراسی میں فوجی صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں آئینی ترامیم کے ذریعے پہلے سے غیر مسلم قرار دیے گئے احمدیوں پر شعائر اسلام کے استعمال کی پابندی لگا دی گئی تھی۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ دریائے چناب کے کنارے، تقریباً پچاس ہزار آبادی کے شہر ربوہ کے پچانوے فیصد لوگ احمدی ہیں۔

زیادہ تر قبریں ایسے لوگوں کی ہیں جو فطری موت نہیں مرے

شہر کے داخلی راستوں پر جامع مسجد الاحرار کی طرف سے چناب نگر میں استقبالیے کے بڑے بورڈ نصب کیے گئے ہیں۔ یہ مسجد تحریکِ ختمِ نبوت کے زیرِ اہتمام ہے۔

چناب نگر یعنی ربوہ، پاکستان کے کسی بھی چھوٹے شہر سے مختلف نہیں۔ خواتین کی اکثریت سر سے پاؤں تک برقعے میں نظر آتی ہے۔ شہر میں پختہ سڑکیں، مکانات اور دکانیں ہیں اور متوسط یا کچے بھی۔

لاہور حملوں کے بعد شہر میں واضح تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ جگہ جگہ کنکریٹ کے بیریئر کھڑے کر دیے گئے ہیں۔ دل کے امراض کے واحد جدید ترین خیراتی ہسپتال اور مرکزِ احمدیہ سمیت تمام اہم عمارتوں کی چار دیواری بلند کر کے خاردار تاریں بچھا دی گئی ہیں اور سکیورٹی کیمرے نصب کر دیے گئے ہیں۔

سکیورٹی کے نئے محاصرے میں ربوہ شہر کے عقبی حصے کی رہائشی، انیسہ منور کا کہنا ہے کہ وہ بالکل خوفزدہ نہیں ہیں کیونکہ بقول ان کے ’خدا تعالیٰ ان کی حفاظت کرنے والا ہے‘۔

واحد نرینہ اولاد ولید سے پہلے انیسہ منور کے والد اور سُسر بھی غیر فطری موت مار دیے گئے تھے۔ اس سوال پر کہ ان کے بیٹے کی موت کے ذمہ دار کون ہیں؟ انیسہ نے اپنی لرزتی ہوئی آواز میں کہا: ’میری کوئی سوچ نہیں ہے۔ میں نے فیصلہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیا ہے جو انہیں کیفرِ کردار تک پہنچائے گا۔‘


Top of Page